تپ دق عالمی صحت کا بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر بھارت میں جہاں سالانہ 2.6 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ غذا کی کمی تپ دق کا ایک بڑا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔ غذائی مدد کی اہمیت اب زیادہ واضح ہو گئی ہے۔
دنیا بھر میں تپ دق کے کیسز میں سے ایک پانچواں حصہ غذائی کمی سے منسلک ہے۔ بھارت میں یہ تناسب ایک تہائی ہے۔ عالمی صحت تنظیم (WHO) نے بھی 2013 سے غذائیت کے معائنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، جو تپ دق کی جامع دیکھ بھال کا حصہ ہے۔
حکومت بھارت نے 'نیکشے پوشن یوجنا' کے ذریعے تپ دق کے مریضوں کی غذائی مدد فراہم کرنے کےلئے اقدامات شروع کئے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد کم وزن کے مریضوں کےلئے توانائی سے بھرپور غذائی سپلیمنٹ فراہم کرنا ہے۔
'رائٹنز' ٹرائل، جو جھارکھنڈ میں ہوا، نے ثابت کیا کہ غذائی مدد سے تپ دق کے کیسز کم کیے جا سکتے ہیں۔ حالیہ ماڈلنگ مطالعہ کے مطابق، اگر میسر غذائی مدد دی جائے تو تقریباً 361,200 اموات کو روکا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیقی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ غذائی مدد مہنگی نہیں، بلکہ صحت کے نظام کے لئے فائدہ مند ہے۔ ہر بچائے گئے زندگی کے سال کے لئے 167 ڈالر کا فائدہ ملتا ہے، جو اس مہم کو مزید مؤثر بناتا ہے۔
غذائی امداد کا ہر گھر اور کمیونٹی پر مثبت اثر پڑے گا۔ یہ نہ صرف تپ دق کی بیماریوں کو کم کرنے میں مدد کرے گا بلکہ صحت اور معیشت میں بھی بہتری لے آئے گا۔
غذا اور تپ دق کے خاتمے کے لئے ہمیں مستقبل کی سمت واضح کرکے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ 2035 تک غذائی حمایت کی توسیع سے ہزاروں جانیں بچانا ممکن ہوگا۔