پارکنسن کی بیماری کو پہلے غیر جینیاتی سمجھا جاتا تھا، مگر اب جدید تحقیق نے اس کی جینیاتی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ نئی مطالعات کے مطابق، تقریباً 13% افراد میں جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں جو بیماری کا باعث بنتی ہیں۔
پی ڈی جنریشن مطالعہ نے جینیاتی جانچ کی خدمات فراہم کی ہیں اور مقامی آبادیوں میں بھی ان کی رسائی بڑھائی ہے۔ یہ مطالعہ 9 سے 40 جینیاتی مارکرز تک پھیلا ہوا ہے، جو بیماری کی وجوہات کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔
جینیاتی تحقیق نے الہلگ جینز کو کامیابی سے پی ڈی سے جوڑا ہے، جیسے کہ α-synuclein اور LRRK2۔ ان جینز میں تبدیلیاں مائٹوکونڈریا کی خرابی اور آکسیڈیٹیو تناؤ کی بنیادی وجوہات ہیں۔
نئی جینیاتی تبدیلیوں کی شناخت نے کلینکل ٹرائلز میں حصہ لینے والے مریضوں کی تعداد بڑھائی ہے۔ پی ڈی جنریشن پروگرام مریضوں کو جینیاتی مشورے فراہم کرتا ہے، جو مرض کے انتظام میں بہتری لاتا ہے۔
بہرحال، نئے جینیاتی تبدیلیوں کی تاثیر کا مزید مطالعہ ضروری ہے۔ خاص طور پر RAB32 Ser71Arg کی جانچ میں مزید شمولیت کی ضرورت ہے تاکہ اس کی پیچیدگیوں کو سمجھا جا سکے۔
مستقبل کی تحقیق میں نئے جینیاتی عوامل کی مکینکی فعالیتوں کا تعین اور ماحولیاتی عوامل کا ادغام شامل ہے۔ کلینکل ماڈلز کی تعمیر بھی نئی دریافتوں کے تجرباتی ٹیسٹ کے لیے ضروری ہے۔
پارکنسن کی بیماری کی جینیاتی دریافتیں ہمیں احتیاط کے ساتھ ان کے علاج میں پیش رفت کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ذاتی نوعیت کی طب کی ترقی اور علاج کے نئے راستے کھلتے ہیں، جو مستقبل میں جلدی تشخیص اور بہتر زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔