فاسٹ فوڈز وہ ہیں جو بڑے پیمانے پر پروسیس کیے جاتے ہیں اور ان میں اضافی preservatives، رنگ، اور ذائقے شامل ہوتے ہیں۔ یہ تیار شدہ ناشتے، مٹھائیاں اور منجمد کھانے شامل ہیں، جو زیادہ تر ممالک میں خوراک کی سپلائی کا بڑا حصہ ہیں۔
فاسٹ فوڈز کے اثرات پر غور نئی بات نہیں ہے، مگر حالیہ تحقیق نے ان کے کئی صحت کے مسائل سے جڑے ہونے کو اجاگر کیا ہے جیسے کہ دماغی کمزوری اور اسٹروک، جو ایک سنگین صحت کا چیلنج ہیں۔
ایک حالیہ مطالعہ نے ظاہر کیا ہے کہ فاسٹ فوڈز انسان کے دماغ میں بھوک اور انعام کے نظام میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ محققین نے پایا کہ ان کی مقدار بڑھانے سے دماغی ساخت میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے جو خوراک کی طلب سے جڑی ہے۔
فاسٹ فوڈز کا مسلسل استعمال دماغی صحت میں کمی اور اسٹروک کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک مطالعہ نے دکھایا کہ اگر فاسٹ فوڈز کا استعمال 10% بڑھ جائے تو دماغی کمزوری کا خطرہ 16% بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کھانے کی پروسیسنگ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے سے تبدیلیاں بھی دماغی صحت پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔
فاسٹ فوڈز کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے عوامی صحت کی چیلنجز ابھر رہے ہیں۔ صحت مند خوراک کو اپنانے کے لیے عوامی جذبات کو بڑھانا ضروری ہے تاکہ فاسٹ فوڈز کے نقصانات سے بچا جاسکے۔
فاسٹ فوڈز کا ہماری دماغی صحت پر اثر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ روزمرہ کی خوراک میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔ صحت مند غذا کی طرف متوجہ ہو کر ہم نہ صرف اپنی جسمانی صحت بلکہ دماغی صحت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔